شیخ محمد بن عبدالوہاب کی حیات
شیخ محمد بن عبدالوہاب موجودہ عرب کے علاقے نجد کے ایک قصبہ العيينہ میں 1703ء میں پیدا ہوئے اسی سال دہلی میں شاہ ولی اللہ بھی پیدا ہوئے۔ وہ بڑے ذہین ،حافظے کے قوی اور بہترین انسان تھے ۔ دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ جاکر قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انہوں نےبے دینی اور جہالت کے باعث عوام الناس کو ان عقائد کو اپناتے ہوئے دیکھا جو کہ قران و حدیث کے بالکل ہی برخلاف تھے اس بات کو محسوس کرکے انہوں نے عزم کیا کہ عوام الناس کو اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں آگاہ کریں گے خواہ اس حوالے سے ان کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانہ پڑے چونکہ شیخ محمد بن عبدالوہاب یہ بات جان چکے تھے کہ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت علماء سو کے بہکائے میں مبتلا ہوکر اسلام قران و حدیث سے بے انتہا دور ہو چکی ہے اس لیئے شیخ محمد بن عبدالوہاب نے سب سے پہلے عوام الناس کے درمیان قران و سنت کی تعلیمات کو رکھنا شروع کردیا
شیخ محمد بن عبدالوہاب نےلوگوں کو ان کاموں سے روکا جو شریعت کے برخلاف تھے۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب تعلیم ختم کرنے کے بعد دینِ اسلام میں شامل یہود و نصاری کے عقائد کو ختم کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر پڑے۔ انہوں نے لوگوں کو کتاب و سنت سے قریب کیا اور ان کو خالص توحید کے معنی بتائے ۔محمد بن عبدالوہاب نے قرآن پاک کی تفسیر کی جو کہ حتی الامکان قران و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنے کی بھر پور جدوجہد کی جس کے نتیجے میں عرب میں علماء سو اور گمراہ عوام کی جانب سے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی مخالفت کا طوفان اٹھ گیا۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب کی سال تک وعظ و نصیحت اور تبلیغ کے ذریعے مسلمانوں کو کتاب و سنت کی طرف دعوت دیتے رہے۔ اس راہ میں ان کو طرح طرح کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے پرواہ کیے بغیر اپنے کام کو جاری رکھا۔ آخر کار 1158ھ میں نجد کے ایک شہر درعیہ کے امیر محمد بن سعود (متوفی:1765ء) نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے کا عہد کیا اور کتاب و سنت کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے پر آمادگی ظاہر کی۔ امیر محمد بن سعود کی مدد سے ان کی تحریک سارے نجد میں پھیل گئی اور امیر کی حکومت بھی شہر درعیہ سے بڑھ کر سارے نجد میں قائم ہوگئی۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب نے پچاس سال تبلیغ و اصلاح کا کام انجام دینے کے بعد وفات پائی۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں کتاب التوحید بہت اہم ہے۔ اس کتاب کی احیائے اسلام کی تاریخ میں وہی اہمیت ہے جو اسلامی ہند میں شاہ اسماعیل کی "تقویۃ الایمان" اور "صراط مستقیم" کی اور مغربی افریقہ میں عثمان دان فودیو کی "احیاء السنۃ" کی ہے۔ محمد بن عبدالوہاب کی تحریک اصلاح نے اسلامی دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ نائجیریا کے مصلح عثمان دان فودیو اور مالی کے عظیم مصلح احمد ولوبو دونوں محمد بن عبدالوہاب سے متاثر تھے۔ یہی بھی کہا جاتا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کے خیالات پر بھی محمد بن عبدالوہاب کا اثر پڑا ہے اگرچہ اس دعوے کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کتاب التوحید اور محمد بن عبدالوہاب کی دوسری تصانیف سید اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کے 1820ء میں حج پر جانے سے بہت پہلے عرب میں عام ہوچکی تھی۔ بہرحال ان مصلحین کا ایک دوسرے پر اثر پڑا ہو یا نہ ہو لیکن ان کے خیالات کی ہم آہنگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اٹھارہویں صدی میں اہل فکر مسلمان علماء کے سوچنے کا انداز تقریباً یکساں تھا اور وہ سب مسلمانوں کو اپنی خرابیاں دور کرنے کے لیے کتاب و سنت کی طرف بلا رہے تھے۔
ان تمام مصلحین کے درمیان ایک بات یہ مشترک ہے کہ ان میں سے سب ایسی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جو انیسویں صدی میں اسلامی حکومت کا مکمل ترین نمونہ کہی جاسکتی ہیں۔ عثمان دان فودیو نے نائجیریا میں، احمد ولوبو نے مالی میں اور سید احمد شہید نے پشاور میں حکومتیں قائم کی۔ں محمد بن عبدالوہاب ان میں زیادہ خوش قسمت تھے کہ ان کے زیر اثر جو حکومت قائم ہوئی وہ زیادہ پائیدار ثابت ہوئی اور آج تک اسلامی دنیا پر اثر انداز ہورہی ہے۔
چونکہ سعودی حکومت حجاز میں قبروں کو ڈھانے اور ان پر بنے ہوئے قبے گرانے کی وجہ سے کم علم مسلمانوں اور قبر پرستوں اور گمراہوں میں بے انتہا بد نام ہے لیکن انہوں نے یہ کام ان احادیث کے مطابق کیا جن میں پختہ قبریں بنانے اور ان پر قبے تعمیر کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ بزرگان دین کی یہ قبریں مشرکانہ رسوم اور بدعتوں کا مرکز بن گئی تھیں۔ سعودی حکومت کو بدنام کرنے میں ان مجاوروں اور قبر پرستوں کا بڑا ہاتھ ہے جن کی روزی ان قبروں سے وابستہ تھی جو مقبروں کے منہدم ہونے کے بعد مفت خوری کی روزی سے محروم ہو گئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ اور انگریزوں نے بھی سعودی حکمرانوں کو بدنام کیا اور ان کے بارے میں غلط یا مبالغہ آمیز خبریں ساری دنیا میں پھیلائیں۔ یہ دونوں حکومتیں آل سعود کی حریف تھیں۔ اسی زمانے میں اسلامی ہند میں تحریک مجاہدین قوت پکڑ رہی تھی اور اس کا زور توڑنے کے لیے انگریزوں نے ہندوستان میں مشہور کیا کہ یہ لوگ بھی محمد بن عبدالوہاب کے پیرو ہیں اور محمد بن عبدالوہاب کے عقیدے کے بارے میں طرح طرح کی غلط باتیں مشہور کیں اور ان کو وہابی فرقہ کا بانی قرار دیا حالانکہ محمد بن عبدالوہاب کسی نئے فرقے کے بانی نہ تھے۔ وہ اہل سنت کے حنبلی مدرسہ کے پیرو تھے اور ان کا مقصد کتاب و سنت کے احیاء کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب نےلوگوں کو ان کاموں سے روکا جو شریعت کے برخلاف تھے۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب تعلیم ختم کرنے کے بعد دینِ اسلام میں شامل یہود و نصاری کے عقائد کو ختم کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر پڑے۔ انہوں نے لوگوں کو کتاب و سنت سے قریب کیا اور ان کو خالص توحید کے معنی بتائے ۔محمد بن عبدالوہاب نے قرآن پاک کی تفسیر کی جو کہ حتی الامکان قران و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنے کی بھر پور جدوجہد کی جس کے نتیجے میں عرب میں علماء سو اور گمراہ عوام کی جانب سے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی مخالفت کا طوفان اٹھ گیا۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب کی سال تک وعظ و نصیحت اور تبلیغ کے ذریعے مسلمانوں کو کتاب و سنت کی طرف دعوت دیتے رہے۔ اس راہ میں ان کو طرح طرح کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے پرواہ کیے بغیر اپنے کام کو جاری رکھا۔ آخر کار 1158ھ میں نجد کے ایک شہر درعیہ کے امیر محمد بن سعود (متوفی:1765ء) نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے کا عہد کیا اور کتاب و سنت کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے پر آمادگی ظاہر کی۔ امیر محمد بن سعود کی مدد سے ان کی تحریک سارے نجد میں پھیل گئی اور امیر کی حکومت بھی شہر درعیہ سے بڑھ کر سارے نجد میں قائم ہوگئی۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب نے پچاس سال تبلیغ و اصلاح کا کام انجام دینے کے بعد وفات پائی۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں کتاب التوحید بہت اہم ہے۔ اس کتاب کی احیائے اسلام کی تاریخ میں وہی اہمیت ہے جو اسلامی ہند میں شاہ اسماعیل کی "تقویۃ الایمان" اور "صراط مستقیم" کی اور مغربی افریقہ میں عثمان دان فودیو کی "احیاء السنۃ" کی ہے۔ محمد بن عبدالوہاب کی تحریک اصلاح نے اسلامی دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ نائجیریا کے مصلح عثمان دان فودیو اور مالی کے عظیم مصلح احمد ولوبو دونوں محمد بن عبدالوہاب سے متاثر تھے۔ یہی بھی کہا جاتا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کے خیالات پر بھی محمد بن عبدالوہاب کا اثر پڑا ہے اگرچہ اس دعوے کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کتاب التوحید اور محمد بن عبدالوہاب کی دوسری تصانیف سید اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کے 1820ء میں حج پر جانے سے بہت پہلے عرب میں عام ہوچکی تھی۔ بہرحال ان مصلحین کا ایک دوسرے پر اثر پڑا ہو یا نہ ہو لیکن ان کے خیالات کی ہم آہنگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اٹھارہویں صدی میں اہل فکر مسلمان علماء کے سوچنے کا انداز تقریباً یکساں تھا اور وہ سب مسلمانوں کو اپنی خرابیاں دور کرنے کے لیے کتاب و سنت کی طرف بلا رہے تھے۔
ان تمام مصلحین کے درمیان ایک بات یہ مشترک ہے کہ ان میں سے سب ایسی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جو انیسویں صدی میں اسلامی حکومت کا مکمل ترین نمونہ کہی جاسکتی ہیں۔ عثمان دان فودیو نے نائجیریا میں، احمد ولوبو نے مالی میں اور سید احمد شہید نے پشاور میں حکومتیں قائم کی۔ں محمد بن عبدالوہاب ان میں زیادہ خوش قسمت تھے کہ ان کے زیر اثر جو حکومت قائم ہوئی وہ زیادہ پائیدار ثابت ہوئی اور آج تک اسلامی دنیا پر اثر انداز ہورہی ہے۔
چونکہ سعودی حکومت حجاز میں قبروں کو ڈھانے اور ان پر بنے ہوئے قبے گرانے کی وجہ سے کم علم مسلمانوں اور قبر پرستوں اور گمراہوں میں بے انتہا بد نام ہے لیکن انہوں نے یہ کام ان احادیث کے مطابق کیا جن میں پختہ قبریں بنانے اور ان پر قبے تعمیر کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ بزرگان دین کی یہ قبریں مشرکانہ رسوم اور بدعتوں کا مرکز بن گئی تھیں۔ سعودی حکومت کو بدنام کرنے میں ان مجاوروں اور قبر پرستوں کا بڑا ہاتھ ہے جن کی روزی ان قبروں سے وابستہ تھی جو مقبروں کے منہدم ہونے کے بعد مفت خوری کی روزی سے محروم ہو گئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ اور انگریزوں نے بھی سعودی حکمرانوں کو بدنام کیا اور ان کے بارے میں غلط یا مبالغہ آمیز خبریں ساری دنیا میں پھیلائیں۔ یہ دونوں حکومتیں آل سعود کی حریف تھیں۔ اسی زمانے میں اسلامی ہند میں تحریک مجاہدین قوت پکڑ رہی تھی اور اس کا زور توڑنے کے لیے انگریزوں نے ہندوستان میں مشہور کیا کہ یہ لوگ بھی محمد بن عبدالوہاب کے پیرو ہیں اور محمد بن عبدالوہاب کے عقیدے کے بارے میں طرح طرح کی غلط باتیں مشہور کیں اور ان کو وہابی فرقہ کا بانی قرار دیا حالانکہ محمد بن عبدالوہاب کسی نئے فرقے کے بانی نہ تھے۔ وہ اہل سنت کے حنبلی مدرسہ کے پیرو تھے اور ان کا مقصد کتاب و سنت کے احیاء کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔